آج موسم مرا حال دل بیان کرتا ہے
آج موسم مرا حال دل بیان کرتا ہے
کہ یہ غم میرے دل کو بیابان کرتا ہے
وہ جو پوچھیں کیا دیا ہم نے انکو
کہہ دینا عاشق اپنی جان قربان کرتا ہے
حکم ہے کوئ ہنسے نہیں دیار درد میں
یہاں بہار کو خزاں خود باغبان کرتا ہے
قاضی کے حکم پے یہاں انصاف نہیں ہوتا
یہاں انصاف صرف تیر اور کمان کرتا ہے
شاید وہ اپنے دل نڈھال کو سنبھال نا پاۓ
وہ شخص جو مردہ دلوں کو گلستان کرتا ہے
میں یہ کیوں کہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں؟
کون اپنی کم مائگی کا اعلان کرتا ہے؟
جس پہ بیتی ہے وہی درد جانتا ہے
کاتب تو بس رقم نئ داستان کرتا ہے
اے دل شکستہ تو بھی نئ تہذیب سیکھ
یہ زمانہ ظلم دیکھ کر بھی انجان کرتا ہے
اس نے یہ کہہ کر نکال باہر کیا کہ
مرجھایا پھول کم چمن کی شان کرتا ہے
وفا کی کمیابی کو دیکھ کر اب
عشق خود اپنی موت کا سامان کرتا ہے
اس نگری میں روشنی برداشت نہیں کسی کو
یہاں ہر کوئ شمع بجھانے کا انتظام کرتا ہے
کہنے کو تو شیخ بہت متقی ہے جو
نیکنامی کی خاطر سجدے نیلام کرتا ہے
نور، اوروں کی طرح تم بھی سر جھکا لینا
کہ قسمتوں کے فیصلے تو شاہ جہان کرتا ہے