بھایا نہیں آب بھی اور شراب بھی
بھایا نہیں آب بھی اور شراب بھی
کبھی ہوا تھا دل ایسا خراب بھی
تیری یاد ہے کچھ ایسی میرے لئے
چبھیں ہیں دونوں، کانٹے بھی گلاب بھی
زندگی اپنی کاغذ پر اتارنا چاہا تو
لکھا کچھ نہیں اور پوری کتاب بھی
یہ اختتام ہے کہ جس سے شروع
نئ راہ بھی اور نۓ باب بھی
کچھ اس اونچائ سے نیچے گرے کہ
ٹوٹا ہر غرور بھی، اور خواب بھی
بےیقینی کی ہماری حد تو دیکھو
جھوٹ لگے حقیقت بھی اور سراب بھی
تاریکی کی کچھ ایسی عادت ہے مجھے
سیاہ لگتا ہے زرد بھی اور شہاب بھی
شک دل میں جگہ کرلے تو اجنبی
سب دوست لگتے ہیں اور احباب بھی
انسان تو انسان، دہکتی آگ میں لیکن
جلتے ہیں دل بھی اور حباب بھی
نور، کیا وجہ ہے کہ ساتھ اسکا
سکون بھی دے اور اضطراب بھی