ان چار دیواروں میں جو ستم ہوۓ ہیں
ان چار دیواروں میں جو ستم ہوۓ ہیں
وہ میرے ہی لہو سے رقم ہوۓ ہیں
پھر تکبر میرا ریزہ بنکے بکھر گیا
پھر دل میں کچھ دکھتے زخم ہوۓ ہیں
کیا جلدی ہے منزل پانے کی تمہیں
ابھی تو کچھ ہی رستے ختم ہوۓ ہیں
جاتے جاتے نظر ہم پہ ڈال گیا وہ
آج ہم پہ کچھ ایسے کرم ہوۓ ہیں
ہم نے سوال کیا کرلیا نباہ وفا کا
ہماری اس جرات پہ وہ برہم ہوۓ ہیں
آج کے لیۓ صحیح آنکھیں مت پھیرنا
تیرے نین زخموں کے مرہم ہوۓ ہیں
بہتر ہے نور سے اسکے غم نہ پوچھیۓ
خوش ہم اس جہاں میں کم ہی کم ہوۓ ہیں