کھلی فضا میں بھی گھٹن ہورہی ہے
کھلی فضا میں بھی گھٹن ہورہی ہے
پھول چھوا جو تو چبھن ہورہی ہے
خوشی ہوئ اس کو یوں دیکھ کر پھر
نہ جانے کیوں دل میں جلن ہورہی ہے
اک شعلے کی مانند حیثیت تھی جسکی
وہ آک مہر کی کرن ہورہی ہے
دریا اک آک کا پار میں نے کیا تب
دیکھا جو پیچھے، راہ وہ چمن ہورہی ہے
جہآں صرف سکون تھا ہمیشہ میسر
وہ فضا کیوں آج بےامن ہورہی ہے
بلاؤں میں اسکو تو نہ آۓ وہ
موت اپنی زندگی میں مگن ہورہی ہے