ملنے آۓ، یہ ملنا تو ایک بہانا تھا

ملنے آۓ، یہ ملنا تو ایک بہانا تھا

مقصد انکا دکھی دل کو تھوڑا اور دکھانا تھا


وہ جہ وفا کا مطلب جانتے نہیں ہیں

کہتے چلے کہ کام انکا وفا سکھانا تھا


کیوں نہ دنیا کو ہنسنا سکھائیں ہم

ہم جنھیں خوشی میں بھی مشکل مسکرانا تھا


وہ روشنی کا کہہ کر لایا چراغ گھر میں

چاہتا تو نشیمن میرا پھر سے جلانا تھا


پھر غموں کی بہار میں پھول چننے چلے ہم

مقصد آج بھی کانٹوں کی وفا آزمانا تھا


کون کہتا ہے کہ یہ غم بدقسمتی ہے ھماری

نور، دردوسوز سے تو ہمیں دل بہلانا تھا