ادھوری غزلیں

نہ فرقت میں سکون، نہ وصل کو ثبات آیا

آپ کی کہانی سنی تو کچھ اپنا حال یاد آیا


ہمیں دو گھڑی اڑان بھرتے کیا دیکھ لیا

پھر صیاد نے جال بچھائ، لگاۓ گھات آیا

کیا لبادے، کیا اوڑھنیاں دیکھوں

نظر ہو دل کی تو دل بےحجاب دکھتے ہیں

تیرے جینے کو جینا کہتی نہیں میں

زندگی تیری ہے موت کا انتظار کرنا

مانا کہ کانٹوں سے تجھے بیر ہے لیکن

پھولوں کو کچل دینا تو کوئ حل نہیں ہے


میں شعر گو ہوں کہ زخم ابھی تازہ ہیں

ورنہ یہ غزل میری محنت کا پھل نہیں ہے


ترک محبت کے لیۓ تیری نگاہ عتاب بہت رہی

یہ عشق میر تھا جسے کافی سلاسل نہیں ہے

پتا چل ہی جاۓ گا اس بار ترک تعلق پہ

نا ہم بےصبر ہیں، نہ ہی ان کو محبت تھی

تعجب نہیں کہ ناامید رہتے ہیں

موسم خزاں میں جو بہار ڈھونڈتے ہیں


اس خودسر جہاں میں محبت پانے چلے جو

قسم اٹھوالو کہ وہ خار ڈھونڈتے ہیں

چھلکتے جاموں کا نشہ اب چڑھتا نہیں ساقی

کہ ہم اسکی آنکھوں میں ڈوب کر آۓ ہیں

نہ کوشش کر تو انہیں سمیٹنے کی

کہ ان لمحوں کی قسمت میں بکھر جانا ہے