رنگ پھیکا پڑا ہے گلزار کا

رنگ پھیکا پڑا ہے گلزار کا

جیسے جشن ہو یہ میری ہار کا


دل میں ہے کسی ماتم کی آمد

جیسے پھول مرجھا جاۓ نئ بہار کا


ابھی دل میں ہے بلا کی سوزش

جیسے زخم ہو اپنوں کے وار کا


اب جب میں سب بھول چکی تھی

کیا فائدہ تھا محبت کے اقرار کا


اب تو بہشت میں بھی سکون میسر نہیں

کہاں سے حصول ہو دل کے قرار کا


بھول جا تو بھی عشق کے اس فصانے کو

آخر کو زوال ہی ہوگا میرے خمار کا


تجھ سے تو کر لوں پاکی بیان اپنی

روزآخر کیا کروں گی دامن داغدار کا